مولانا احمد رضا خان بحیثیت مفتی: ایک تجزیاتی مطالعہ
Mulānā Ahmad Raza Khan as a Muftī: An Analytical Study
Keywords:
Keywords: Ahmad Radha, Al‘┐ Hazrat, methodology of fatwa, Islamic legal unbinding theoryAbstract
Fatwā is a non-binding Islamic legal theory which a competent Muslim scholar issues upon when asked about a particular question. It is the Muftī who at the same time does struggle to extract the shari‘ah ruling for a newly faced problem and then issues the fatwa. Ahmad Raza Khan, the founder of Bralvi main stream, a renounced leading Islamic scholar, is one of those Hanfī scholars who promoted hanfī fiqh in Subcontinent. His book of fatwā comprises of mostly chapters of fiqh , the reader of his Ftāwā finds the author holding all the qualities of a mufti. This study finds out that the methodology of issuing fatwa of Ahmad Radha Khan puts him in the list of great fuqha and his book is having the status of enpsychlopedia of hanfī fiqh. The ftāwās of the author have been highly appreciated in and outside the country; besides the Muslim scholars the law court also considers it decisive.
References
مولانا احمد رضا خان کا یہ نام ان کے دادا محترم مولانا رضا علی خان ( متوفی 1866 م ) نے رکھا اور اسی نام سے اندرون و بیرون ہندوستان میں مشہور ہوئے، جبکہ ان کے والد محترم محمد نقی علی خان قادری ( متوفی 1297 م ) نے ان کا نام محمد رکھا تھا۔ دیکھئے : سید مشتاق احمد شاہ ، مولانا احمد رضا خان ، واثرہ فی الفقه الإسلامي ، مقالہ برائے ایم فل ، جامعہ ازہر شریف 1997 ، ص 03 ؛ سید صابر حسین شاہ بخاری قادری ، امام احمد رضان خان بریلوی اور فخر سادات سید محمد ( لاہور ، رضااکیڈمی )، 24 ؛ ممتاز احمد سدیدی ، الشیخ احمد رضا خان بریلوی ہندی عربی شاعر ( لاہور ، موسسۃ الشرف ، طبع اول 2002 )، 93 – 94 ۔ مولانا احمد رضا خان اپنے نام کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں : "عبدالمصطفي الشهير بأحمد رضا المحمدي دينا ، والسُنِّي يقينا ، والحنفي مذهبا ، والقادري منتسبا ، والبركاتي مشربا ، والبريلوي مسكنا ، والمدني البقيعي إن شاء الله فنا" ( عبد المصطفی جو احمد رضا کے نام سے مشہور ہے اور دینی لحاظ سے محمدی ، یقینی اعتبار سے سنی، مزہبی لحاظ سے حنفی، نسبت کے لحاظ سے قادری، مزرب لے اعتبار سے برکاتی ، سکونت کے اعتبار سے بریلوی، اور وفات کے اعتبار سے بقیعی اور مدنی ہے)۔ دیکھئے : ڈاکٹر محمد مسعود احمد ، حیات امام اہل السنۃ ( لاہور ، رضا اکیڈمی، 1984)، 01
ہندوستان میں واقع ولایت اتر پردیش کا ایک شہر ہے جو کہ دلی کے جنوب مشرق میں 135 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ دیکھئے : ڈاکٹر محمد احمد مسعود ، الشیخ احمد رضا خان ( لاہور ، مکتبہ قادریہ ، 1991)، 16
دیکھئے : مولانا ظفر الدین بہاری ، حیات اعلی حضرت ( لاہور ، مرکزی مجلس رضا ، 1992)، 1/1 ؛ امام احمد رضا خان اور فخر سادات ، ص 23
دیکھئے : ،محمد نور مصطفی محمدی ، ذکر رضا ( لاہور ، رضا اکیڈمی ، )، 21
دیکھئے : شیخ کوثر نیازی ، امام احمد رضا خان بریلوی و شخصیتہ الموسوعۃ ( لاہور ، رضا اکیڈمی ، 1995)، 15
دیکھئے : حیات اعلی حضرت ، ص 22
مولانا نقلی علی خان 1246 م میں پیدا ہوئے ، علما میں علمی نام سے جانے جاتے ہیں، شاہ آل رسول مارہروی سے طریقت حاصل کی اور حدیث کی سند اجارت لی ، 1295 میں فریضہ حج ادا کرنے کی سعادت حاصل کی ، اور وہاں شیخ احمد بن زینی دحلان مکی سے حدیث کی سند اجازت حاصل کی ، وسیلۃ النجاۃ اور سرور القلوب فی ذکر اکمحبوب کتابیں تصانیف کیں۔ 1880 میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ دیکھئے : نزھۃ الخواطر 7/1126 ؛ حازم احمد محفوظ ، بساتین الغفران از احمد رضا خان (کراچی، مجمع بحوث الامام احمد رضا خان ، 1997)، 236
دیکھئے : حیات اعلی حضرت ، ص 33 ؛ عبد الحکیم اختر شاہ جہان نوری ، مولانا احمد رضا خان کے رسائل ( لاہور ، مکتبہ حامدیہ، 1988)، 2/301 - 315
دیکھئے : حيات أعلى حضرت ، 1 / 280
دیکھئے : رسائل رضویۃ 2/309
دیکھئے : ابو الحسن علی ندوی ،تكملة نزهة الخواطر وبهجة المسانع والنواظر لعبد الحیی الحسینی ،(بیروت ، دار ابن حزم ، طبع اول 1999)، 8/1182
ڈاکٹر محمد مسعود احمد 1930 کو ہندوستان کے شہر دہلی میں پیدا ہوئے ، اعلی حضرت امام احمد رضا خان کی سوان حیات پر بہت کام کیا ، اسی وجہ سے
ان کو مجمع بحوث امام احمد رضا خان کا صدر بنایا گیا۔ دیکھئے : ڈاکٹر اعجاز انجم لطیفی ، ڈاکٹر محمد مسعود احمد : ان کی سوانح حیات اور ادبی و علمی خدمات ،
رسالۃ برائے ڈاکٹریٹ ، جو کہ جامعہ بہار ، ہندوستان مین 1997 کو پیش کیا گیا ( کراچی ، ضیاء الاسلام ، طبع اول 2002) ۔
دیکھئے : اعجاز انجم لطیفی ، ڈاکٹر محمد مسعود احمد کی ادبی اور علمی خدمات (کراچی۔ ضیاء الاسلام، طبع اول 2002م )، جامعی بہار میں یہ رسالہ ڈاکٹریٹ
کی ڈگری کے حصول کے لیے 1997 م میں پیش کیا گیا۔
اعلی حضرت کی تصنیفی خدمات کے علاوہ ملی ، تحریکی ، وطنی اور سیاسی خدمات بھی ہیں ، چونکہ اس مقالے میں ان کی مفتی ہونے کی حیثئت کو واضح کیا جارہا ہے اس لیے ان کی تصنیفی خدمات کو صرف بیان کیا گیا جن میں ان کے فتاوی موجود ہیں۔
مولانا ابو الحسن ندوی ؒ 6 محرم 1333ھ بمطابق 1914 کو ہندستان کے شہر رای بریلی میں پیدا ہوئے، ان کا خاندان کو سادات قطیعہ کے نام سے مشہور و معروف ہے، ان کی تصنیفی خدمات میں قصص النبیین، مختارات من الادب العربی شامل ہیں۔ 1999 کو انہوں نے وفات پائی۔ دیکھئے : ڈاکٹر نور محمد شاکر ، شذرات من الادب العربی فی شبه القارۃ الهندية (لاہور، پاکستان ، طبع اول، 1428ھ)۔
دیکھئے : نزھۃ الخواطر 8/1181 - 1182
دیکھئے : محمد احمد رضا خان والعالم العربی ،ص 47 ؛ مولانا یسین اختر مصباحی ، امام احمد رضا خان رد بدعات و منکرات (ملتان ، مدنی کتب خانہ)، ص
– 415 ؛ تذکرۃ علما اہل السنۃ ص 46
مولانا محمد اسد قادری ، تلخیص فتاوی رضویہ (لاہور ، اکبر بک سیلرز، 2010)، 1/36
احمد رضا خان والعالم العربی ، ص 39
سورۃ ابراہیم ، 14/04
فتاوی رضویۃ ، 1/137
نفس مصدر ،1/ 147
نفس مصدر 1/470
فتاوی رضویۃ 13/308 - 310
نفس مصدر 6/143 - 147
فتاوی رضویہ 15/128
فتوی میں تاریخ لکھنے کی اہمیت پر مندرجہ ذیل واقعہ منطبق آتا ہے کہ ابو بکر الصولی محمد بن یحیی کہتے ہیں کہ میں نے ابو حنیفہ الدینوری کو خط لکھا اور تاریخ لکھنا بھول گیا تا انہون نے جواب دیا :" وصل كتابك مبهم الأوان ، فظلم البيان ، فأدى خبرا ما القرب فيه بأوفي من البعد منهم ، فإذا كتبت - أعزك الله – فلتكن كتبك موسوعة بالتاريخ ، أعرف أدنى أتارك ، وأقرب أخبارك " (آپ کا خط گرامی قدر پہنچ گیا ہے لیکن غیر معلوم وقت کے بارے میں ہے جس کی وجہ سے خط کا مقصد مبہم ہو گیا ہے، آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ جب بھی لکھو تو تاریخ ضرور نقل کیا کرو)۔ دیکھئے : اسامۃ بن منقذ ، الباب الآداب ، ص40۔ یہ واقعہ شیخ عبد الفتاح ابو غدہ کی کتاب صفحات من صبر العلما علی شدائد العلم والتحصیل ، ص 08 سے لیا گیا ہے۔
مثلا اعلی حضرت کا رسالہ بعنوان " ازہار الانوار من صبا صلوۃ الاسرار" ، دیکھئے : فتاوی رضویہ 8/571 اور اسی طرح" الطرس المعدل
فی الماء المستعمل " دیکھئے : فتاوی رضویہ 2/43۔
فتاوی رضویہ 9/854۔ فتاوی رضویہ کی جلد 9 میں صفحہ 847 سے 854 تک اس مسئلہ کو بیان کیا گیا ہے۔
دیکھئے : ابن عابدین ، محمد امین بن عمر ، شرح عقود رسم المفتی (کراچی، مکتبۃ البشری، طبع اول : 2009)، 07
دیکھئے : شیبانی ، محمد بن حسن ، الاصل ، تحقیق : محمد یوینو کالن ، (مردان ، مکتبۃ الاحرار، طبع اول : 1433ھ)، 309 ؛ ابن نجیم زین الدین بن ابراہیم، البحر الرائق شرح کنز الدقائق (دار الکتاب الاسلامی ، طبع ہفتم)، 1/257
دیکھئے : فتاوی رضویۃ ، 5/133
شرح عقود رسم المفتی ، ص 18 ؛ عثمانی ، محمد تقی ، اصول الافتاء وآدابه ( کراچی ،معارف القرآن ،2011)، 190
تھانوی ، محمد علی ،کشاف اصطلاحات الفنون والعلوم (بیروت ، لبنان ناشرون ، 1996) ، 2/1146؛ جرجانی علی بن محمد ، التعریفات (بیروت، دار الکتاب العربی، طبع اول : 1405ھ)، 64
دیکھئے : فتاوی رضویۃ ، 5/133
شرح عقود رسم المفتی ، ص 18؛ أصول الافتاء وآدابه ، ص 190
دیکھئے : امین افندی ، علی حیدر خواجہ ، درر الحکام فی شرح مجلة الأحکام (دار الجلیل ، طبع اول : 1991)، 1/17 ؛ ندوی علی احمد ، القواعد الفقهية : نشأتها ، تطورها، دراسة مؤلفاتها ، أدلتها ، مهمتها وتطبيقاتها (دمشق ، دار القلم)، 333-347
دیکھئے : فتاوی رضویہ 3/279 اور 282 ؛ 4/396
نفس مصدر 3/280
دیکھئے : شرح عقود رسم المفتی ، ص 75 ؛ اصول الافتاء وآدابه 250 - 255
دیکھئے : فتاوی رضویہ 1/165
نفس مصدر 1/166
نفس مصد ر
اعلی حضرت کا یہ رسالہ فتاوی رضویہ کی جلد اول ص 95 سے شروع ہوتا ہے ، اور یہ رسالہ 1334ھ میں مکمل ہوا۔
دیکھئے : فتاوی رضویہ 1/98؛ 12/113؛11/484، 485
نفس مصدر 1/101
نفس مصدر 10/289
نفس مصدر 12/505،506
قرآن مجید کی اصولیوں نے مختلف انداز میں تعریف کی ہے، چنانچہ ڈاکٹر شعبان اسماعیل یوں رقمطراز ہیں کہ "قرآن اللہ تعالی کا معجز کلام ہے جو سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے قلب اطہر پر نازل ہوا، جو مصاحف میں لکھا ہوا ہے اور تواتر کے ساتھ منقول ہوا ہے، الحمد سے شروع ہوتا ہے اور ناس پر ختم ہوتا ہے"۔دیکھئے : شعبان محمد اسماعیل ، أصول الفقه المیسر(دار ابن حزم ، طبع اول : 2008)، 82 ؛ شوکانی ، محمد بن علی ، إرشاد الفحول إلی تحقیق الحق من علم الأصول ، تحقیق : ابو حفص سامی بن العربی (ریاض ، دار الفضیلۃ، طبع اول : 2000)، 1/169
سورۃ بقرۃ ، 2/229
سورۃ یسین ، 36:38
اصولیوں کے ہاں حدیث سے مراد " نبی اکرم ﷺ کے اقوال ، افعال اور صحابہ کے وہ اقوال ہیں جو آپ ﷺ کے سامنے کیے گئے اور آپ ﷺ نے خاموشی اختیار کی "۔ دیکھئے : أصول الفقه المیسر ، ص 143 ؛ محمد رضا مظفر ، أصول الفقه(مکتبۃ العزیزی ، طبع دوم:2007)، ص 331
دیکھئے : فتاوی رضویہ 1/239
ترمذی ، محمد بن عیسی ، سنن ترمذی ، ابواب الطہارۃ ، باب المندیل بعد الطهارة (مصر، شرکہ و مطبعہ مسطفی البابی الحلبی، طبع دوم : 1975)، حدیث : 53
دیکھئے : فتاوی رضویہ 1/579
محمد بن اسماعیل ،صحیح بخاری ، كتاب الوضوء باب الوضوء بالمد (دار طوق النجاۃ، طبع اول : 1422ھ)، رقم الحديث : 201
دیکھئے : أصول الفقه المیسر ، 258؛ محمد رضا ، أصول الفقه ، ص 342
فتاوی رضویہ میں یہ رسالہ موجود ہے ، دیکھئے : فتاوی رضویہ 1/115 - 125
نفس مصدر 5/104
نفس مصدر 6/38 - 39
نفس مصدر 2/263-264
قیاس سے مراد یہ ہے کہ علت کے متفق ہونے کی وجہ سے منصوص احکام کے حکم کو غیر منصوص احکام میں منتقل کر دینا۔ دیکھئے : جوینی ، ابو المعالی ، امام الحرمین عبدالملک بن عبداللہ ، البرهان فی اصول الفقه، تحقیق : عبدالعظیم ادیب، (قطر، طبعۃ قطریۃ، طبع اول :1399ھ)،2/745
فتاوی رضویہ 14/292-293
نفس مصدر 12/205-206
استحسان سے مراد یہ ہے کہ ظاہرا قیاس کو ترک کر کے ایسے پہلے کو اختیار کرنا جس میں لوگوں کے لیے آسانی پائی جائے۔ دیکھئے : اصول الفقه الذی لا یسع الفقيه جهله ، ص 194
فتاوی رضویہ 2/138 - 139
نفس مصدر 10/155-116
نفس مصدر 13/580
دیکھئے : فتاوی رضویہ 9/108
دیکھئے : فتاوی رضویہ 1/280
نفس مصدر 4/609-610
نفس مصدر 9/318
فتاوی رضویہ 1/365
نفس مصدر 7/208
نفس مصدر 9/183
نفس مصدر 12/585
دیکھئے : فتاوی رضویہ 25 / 77 - 78
نفس مصدر 21/201-205
نفس مصدر
نفس مصدر
نفس مصدر 21/205 - 209
نفس مصدر 25/77-78
Downloads
Published
How to Cite
Issue
Section
License
Copyright (c) 2023 Al-‘Ulūm Journal of Islamic Studies
This work is licensed under a Creative Commons Attribution-NonCommercial-NoDerivatives 4.0 International License.